دشمنانِ_جاں قسط_3آرکےناولز
Dushman e Jaan Novel By Rabia Khalid Episode 3
R k novels
دونوں میں کوئی بات نہیں ہوئی تھی امرحہ نے فول ہاشم کو اگنور کیا جیسے اسکو کوئی فرق ہی نا پڑتا ہو کہ وہ تھپڑ مار چکی ہے دونوں میں خاموشی رہی آج امرحہ کا پہلا دن تھا کالج میں دونوں ایک ہی کار میں گے تھے پہلے ہاشم اپنے سکول چلا گیا پھر امرحہ اپنے کالج گاڑی میں بیٹھے تک انہوں نے بات نا چھیڑی اب تو کلاسسز سے لیو ہو چکی تھی وہ اپنے کالج کے ویٹنگ ایریے میں بیٹھے ڈرائیور کا ویٹ کر رہی تھی رنگ برنگی دنیا تھی وہ ان سب سے انجان تھی
کالج کے باہر کار دیکھ پہچانتی وہ بھاگ کر باہر نکلی
” اوففف آج کا دن بہت ٹف تھا “
کار میں بیٹھتے ہی امرحہ نے کہا نظر ہاشم پر گئی تھی جو سائڈ پر بیٹھا اپنی بک ریڈ کر رہا تھا جبکہ بک ایک ہاتھ سے تھامی تھی اسنے ایک نظر تک نا دیکھا امرحہ کو
” اگر کچھ لینا ہے تو بتا دیں چھوٹی سائیں “
امرحہ کی نظر ہاشم سے تب ہٹی جب ملازم کی آواز کانو میں سنائی دی
” نہیں۔ آپ گھر چلیں “
ڈرائیور نے ہاں میں سر ہلایا اور کار وہاں سے روڈ پر چلی امرحہ نے اپنی گلاسز اتاری اور سائڈ پر بیگ رکھا اسنے نوٹ کیا تھا کہ ہاشم اپنی پینٹ کی پاکیٹ میں ہاتھ ڈالے ایک ہاتھ سے بک ریڈ کر رہا تھا شاید یہ سٹائل تھا اسکے بیٹھنے کا
” ہاشم کو چھٹی کتنے بجے ہوتی ہے “
ملازم سے پوچھتی وہ ہاشم سے نظریں ہٹاتی ہے
” آپ سے پہلے ہو جاتی ہے چھوٹی سائیں”
امرحہ نے کچھ سوچا پھر جواب دیا
” تو کیا اب سے یہ لیٹ جایا کرے گا گھر میرا ویٹ کرتا رہے گا “
ملازم کی نظر ہاشم پر گئی تھی جس کی آنکھوں میں چپ رہنے کو اشارہ تھا
امرحہ نے ہاشم کو پھر سے دیکھا مگر وہ کوئی بات نہیں کر رہا تھا دیکھتے گھر آ گیا تھا جلدی سے ڈور کھولتے وہ باہر کو نکلا تھا مگر تبھی امرحہ کی نظر اسکے پینٹ کی پاکیٹ سے باہر نکلتے ہاتھ پر گئی تھی جہاں پر زخم بنا ہوا تھا
” ہاشم رکو “
جلدی سے کار سے باہر نکلتی وہ اسکو آواز دے کر روکتی ہے
” ہاشم رکو مجھے بات کرنی ہے “.
ہاشم نہیں روکا تھا وہ ہال سے ہوکر اپنے کمرے میں چلا گیا
امرحہ اسکے پیچھے گئی تھی آخر ہاتھ پر چوٹ لگی کیسے تھی وہ جاننا چاہتی تھی
” ہاشم “
وہ کمرے میں آئی تو ہاشم بیڈ پر بیٹھا اپنے ہاتھ پر فرسٹ ایڈ باکس سے ٹیوب نکال کر لگا تھا ہاتھ پر
” مجھے بتاؤ یہ کیسے ہوا “
وہ پاس جاتی کھڑی ہوئی تھی
” کلاس میں فائٹنگ کی تھی فرینڈ کے ساتھ تب بینچ سے لگا تھا ہاتھ “
مرہم لگانے میں مصروف انداز میں بولا تھا جبکہ ماتھے پر پسینہ شرابور ہوتے بال ساتھ جڑ گے تھے وہ اسکے پاس آتی بیٹھی تھی
” بیڈ مینرز ہاشم کسی سے فائٹنگ نہیں کرتے لاؤ مجھے دیکھاؤ ہاتھ “
امرحہ نے ہاتھ کو کپڑا تو ہاشم نے فوراً سے ہاتھ پیچھے کیا
” آپ مجھ سے پیار نہیں کرتی مجھے ہرٹ کرتی ہے آپ نے مجھے بہت ہرٹ کیا ہے میں بہت رویا تھا سکول صرف آپکی وجہ سے آپ بلکل مجھ سے پیار نہیں کرتی امرحہ جی “
وہ سپاٹ لہجے میں کہتا بیڈ سے نیچے اترا اور کمرے سے باہر بھاگ گیا امرحہ دیکھتی رہ گئی کہ وہ کیا باتیں کہہ گیا تھا اسنے اٹھ کر آپنی ڈریس چینج کی اور ہاشم کو منانے کے ارادے بنائے
وہ باہر گارڈن میں آئی تو ہاشم جھولے پر بیٹھا اکیلا تھا
” ہاشم “
وہ پھر سے امرحہ کو دیکھتا وہاں سے بھاگا جیسے وہ بات ہی نا کرنا چاہتا ہو امرحہ سے وہ خود کو کوس رہی تھی کتنا بولتا تھا وہ چپ کر گیا تھا امرحہ خود کو بلیم کر رہی تھی
🔥❤️🔥❤️🔥❤️🔥❤️🔥❤️🔥❤️🔥❤️
دوپہر سے شام ہونے کو تھی مگر ہاشم اپنے کمرے سے باہر نا نکلا تھا امرحہ نے ملازمہ سے پوچھا کہ وہ باہر کیوں نہیں آ رہا مگر وہ اب خود پریشان تھی اسکو لے کر اسنے ملازمہ سے ہاشم کی فیورٹ ڈیش پوچھی اور نوڈلز باؤل میں بنا کر رکھتی وہ اب ہاشم کو منانے کے ارادے رکھتی تھی
” ہاشم “
وہ کمرے میں آئی تو سامنے ہاشم پر نظر گئی جو منہ پھلائے بیڈ پر کراؤن سے ٹیک لگا کر لیٹا تھا اسنے جلدی سے منہ دوسری طرف کیا جیسے بڑی ناراضگی ہو
” کیا ناراض ہو “
پاس جاتے اسنے پلیٹ بیڈ شیٹ پر رکھی
” ہاشم تمہیں ایسے بات نہیں کرنی چاہیے تھی وہ عمر میں بڑے ہے ہم دونوں سے “
ہاشم بغیر کوئی جواب دیئے بیڈ سے اٹھا منہ غصے سے پھولا کر وہ روک کر پیچھے آتے امرحہ کے سامنے کھڑا ہوتا ہے
” آج سے آپ مجھے ہرٹ نہیں کرے گی “
بھیگی بھیگی آواز چہرے پر بچو جیسی معصومیت امرحہ کو ہنسی آ رہی تھی
” ہائے میرا برگر ناراض ہے “
اسکے گالوں کو مروڑتے وہ نرم لہجے سے بولی ہاشم نے آنکھیں بند کر لی اسکے گال مروڑنے پر
” میں آپکا برگر نہیں ہو “
جلدی سے ہاتھ پیچھے کرتا وہ پھر سے منہ بناتا ہے امرحہ نے حیرانی سے آنکھیں کھولی
” تم تو میرے برگر ہی ہو دل کرتا ہے تمہیں کھا جاؤ “
امرحہ نے یونہی بے خبری میں کہا تھا ہاشم خود حیران تھا وہ اسے کیا کہہ گئی
” اگر آپ مجھے کھا جائے گی تو میں بڑا ہو کر آپ سے پیار کیسے کرو گا “
امرحہ کو ہنسی آ رہی تھی اسکی باتوں پر
” کیا تم مجھ سے پیار کرتے ہو “
امرحہ نے سوالی نظرو بنائی تو ہاشم مسکرایا
” پیار تو بچے کرتے ہے اور میں پورے بارہ سال کا ہو اس لیے میں پیار نہیں بلکہ عشق کرتا ہو آپ سے امرحہ جی “
امرحہ کی ہنسی تھمی تھی یہ سن کر جبکہ ہاشم کا چہرہ مسکرا رہا تھا
” تم آج کے بعد ایسی باتیں نہیں کرو گے ابھی تم چھوٹے ہو بہت چھوٹے “
” میں جب بڑا ہو جاؤ گا تب ایسی باتیں نہیں بلکہ بن کر دیکھاؤ گا پکا والا پرومس امرحہ جی “
ہاشم نے جلدی سے امرحہ کے گال کو چوما اور فوراً پیچے ہوتے بیڈ پر جاکر بیٹھتے نوڈلز کھانے میں مصروف ہوا امرحہ نے ساکت حالت میں ہاشم کو دیکھا تھا
” اچھا یہ بتاؤ باہر چلو گے میرے ساتھ “
امرحہ کی بات پر ہاشم نے سر اٹھا کر دیکھا اور مسکرایا
” کیا سچ مچ “
خوشی سے آنکھیں کھولی تھی
” ہمم “
مسکراتے اسنے مختصر جواب دیا
” ہم سنو فالونگ ہاؤس جائے گے مجھے وہاں پر جانا بہت پسند ہے “
جلدی سے اٹھتے وہ امرحہ کے سامنے کھڑا ہوا
” اوکے “
ہاشم کو یقین نہیں آ رہا تھا وہ کیسے اسکی ہر بات مان رہی تھی
” لو بھائی کہتے تھے نا لڑکیاں بھاگ جاتی ہے اب بتاؤ اس جعمہ کو نکاح ہے میرا “
جاوید نے ہال میں آتے دیکھ جمشید سے کہا
” اوو اچھا کس لڑکی کو آپ شوہر کے طور پر قبول کروائے جا رہے ہے زبردستی”
فون پر ٹائپنگ کرتا جمشید بولا
” وہ تو تجھے پھر بتاؤ گا پہلے یہ بتا عینک والی سے بات ہوئی “
جمشید کے ساتھ بیٹھنے کی دیر تھی جب جاوید نے کندھے پر ہاتھ رکھ تھپتھپی دی
” ارے وہ۔ وہ تو یونی ہی نہیں آئی تھی لگتا ہے ڈر گئی ہے بیچاری “
فون بند کر رکھتا جمشید ہنستے کہتا ہے
” ویسے مجھے بھی ساتھ لے جاتے فائدہ اوٹھا لیا اکیلے اکیلے جا کر “
سعدیہ بی ہال کے ٹیبل پر ملازمہ سے کھانا سیٹ کروا رہی تھی جمشید دیکھتے ہی وہاں سے اٹھ کر ڈائنگ ٹیبل کی کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا
” ہائے اماں سائیں آج تو بہت بھوک لگی ہے ایک کام کرے میرے دوستوں کا کھانا بھی پیک کر دیں انکی بھی عید ہو جائے گی “
ہاتھ ملتے وہ کھانے کی کئی ڈیشیز دیکھتا بولا
” کیوں پیک کرو۔ بلکے تم ان کو پارٹی دینا “
سعدیہ بی نے کیچن سے باہر آتے کہا
” ارے واہ لگتا ہے کہ اب مجھے بھی شادی کر لینی چاہیے لڑکیوں کی تو لائن آگے ہی لگی ہوئی ہے کم از کم آپ کھانے تو بنا کر دیا کرے گی نا بلکل ایسا جیسا آج بھائی کے بکرا بننے پر بنایا ہے “
جمشید شرارت سے کہتا اپنی پلیٹ میں کھانا ڈالتا ہے اب سب ٹیبل کی کرسیوں پر بیٹھ گے تھے اور کھانے میں مصروف ہوئے
” ویسے ہماری نا ہونے والی بھابھی کا نام کیا ہے “
جاوید نے نظر اٹھا کر جمشید کو دیکھا
” اب تو جب ہو جائے گی تیری بھابھی پھر ہی بتاؤ گا “
اماں سائیں کو ہاتھ کے اشارے سے نام بتانے سے منع کرتے جاوید کہتا ہے جمشید نے کندھے ہجکائے ” جیسے آپ کی مرضی “
” میں تمہیں بتا رہی ہو فیزا اسکی دونوں ٹانگیں توڑو گی آج “
” آپی پلیزز واپس چلے کیوں مجھے اور خود کو جیل میں ڈالوانے پر تولی ہے “
وہ سیدھا آفس چلی آئی تھی سیکورٹی گارڈ ان دونوں کے پیچھے تھا اور وہ تیزی سے بھاگتے میٹینگ روم میں پھاڑ کی طرح انٹری کرتی ہے
” تم زرا یہ دیکھ لینا اور میٹنگ کا کہو “
جاوید کے ابھی یہی لفظ منہ میں تھے جب فائزہ اندر داخل ہوئی ابھی تو شکر کہ میٹینگ سٹارٹ نہیں ہوئی تھی
” آپ ۔۔ “
جاوید نے ملازم کو اشارے سے جانے کا کہا
” زیادہ تمیز دار بننے کی ضرورت نہیں بہت اچھے سے جانتی ہو کیا سوچ کر میرے گھر رشتہ بھیجا “
فائزہ سیدھا اسکی کرسی کے پاس کھڑی ہوئی جبکہ فیزا بلکل خاموش کمرے کے دروازے کے پاس ہی رہی
” رشتہ تو اللہ جوڑتے ہے اگر ہم دونوں کا جڑ رہا ہے تو آپ اتنا غصہ کیوں ہے “
کرسی سے اٹھتے اسنے متفق انداز میں کہا
” دیکھو ۔”
انگلی دیکھاتے وہ قدم بڑھا رہی تھی
” مجھے بلکل بھی تم پسند نہیں ہو “
” نکاح کے بعد پسند بن جاؤ گا “
فوراً سے جاوید نے جواب دیا فیزا کی ہنسی کنٹرول سے باہر تھی وہ تو انجوائے کر رہی تھی آج دونوں کی ان بن کو
” خود کو دیکھا ہے “۔ اب نہیں دیکھتا جب سے آپ کو دیکھا ہے
فوراً سے آگے بڑھتا جاوید بولا
” اووو ہووو دیکھو زرا اس ہیرو کو “
فیزا کی طرف دیکھتی وہ بولی مگر وہاں پر تو فیزا کھڑی ہی نہیں تھی
” کیا برائی ہے مجھ میں جس پر اپ انکار کر رہی ہے “
جاوید نے فوراً سے ہاتھ کھینچ کر اپنے قریب کیا فائزہ کی آنکھیں حیرانی کے تاثرات دیکھا رہی تھی ایک تو فیزا نہیں تھی اور اوپر سے یہ حرکت
” تم میں کوئی اچھائی نہیں بس یہی برائی ہے “
وہ ہاتھ چھڑوانے کی جدوجہد کرتی بولی جاوید نے آنکھیں چھوٹی کر دیکھا
” میں نے تو سنا تھا محبت جن سے ہو ان کو اپنا محبوب ہر برائی میں قبول ہوتا ہے “
فائزہ کو پیچھے دھکیلتے وہ کہتا ہے
” بکواس بند کرو جاہل “
جلدی سے پاؤ پر ہٹ کرتی وہ دور کھڑی ہوئی جاوید کا سارا موڈ زہر کر دیا فائزہ نے
” کتنا زور سے مارا ہے “
جاوید بولتا ہی رہ گیا جب فائزہ نے باہر فیزا کو دیکھا وہ آخری بار وارن کرنے لگی
” اگر اب رشتہ آیا تو پاؤ پر پاؤ نہیں مارو گی بلکے گھر کے کتے چھوڑو گی تم پر “
انگلی سے وارن کرتی وہ باہر نکل گئی جاوید کا منہ کھلا کا کھلا ہی رہ گیا
” نکاح تو مجھ سے ہی ہوگا “
درد دور کرتے وہ اسکی پشت کو دیکھتے بولا جبکہ وہ دونوں بہنے چلی گئی
جتنا مرضی وہ انکار کرتی مگر آج نکاح طے تھا دونوں گھروں میں نکاح کی تقریبات چل رہی تھی نکاح تابش بی کے گھر پڑھوایا جانا تھا وہ اپنی حویلی سے نکلے تھے سعدیہ بی اور جاوید ایک کار میں مگر جمشید اپنی الگ کار میں دوستوں کے ساتھ آ رہا تھا
” کہا تھا نا کہ انسے مت لڑا کرو اب ان کی باری ہے “
فائزہ کے بازوؤں پر سرخ رنگ کا بین جس پر جاوید کی دلہن لکھا ہوا تھا باندھتے فیزا بولی
” اچھا کرتی تھی بلکل اچھا “
اپنے لہنگے کو سنبھالتے وہ بولی دونوں بہنے پیاری لگ رہی تھی فیزا نے گرے شراشا ڈالا تھا بال آزاد تھے جو کمر کو آخر تک چھوتے تھے فائزہ سرخ لہنگے میں بلا کی لگ رہی تھی
” آج تو انکل سے اچھی موٹی رقم وصول کرو گی “
فیزا نے ہنس کر کہا وہ اسکا ہاتھ پکڑتی باہر رخ کرتی ہے
” پلیزز یار انکل مت بولا کرو جب تم انکل بولتی ہو تو سچ میں مجھے ایسے لگتا ہے جیسے کسی انکل سے نکاح ہے میرا “
پیلر کے پاس سے گزرتے فائزہ نے کہا
” اچھا پھر کیا بولا کرو آپ ہی بتا دیں “
” اب اتنی بھی معصوم مت بنو اپنے ہونے والے جیجو کہا کرو سمجھی “
آنکھو سے سمجھاتی وہ ہال کی سیڑھیاں نیچے اتری تھی اگر دیکھا جاتا تو باہر کے ایریے میں اہتمام تھا
” اوو ہوو۔ “
شرارت سے بات لمبی کرتی وہ مسکرائی
” اماں سائیں جمشید کہاں پر ہے ابھی تک نہیں آیا “
جاوید کو فکر تھی اسکی نکاح شروع ہونے والا تھا مگر وہ ابھی تک نہیں آیا تھا
” آتا ہوگا تم ٹینشن مت لو “
سعدیہ بی نے بے فکر ہوکر کہا
” اس کے منہ کے تو ابھی سے ہی بارہ بجے ہوئے ہے “
سٹیج کے پاس جاتے فائزہ نے کہا
” چپ کرو “
ڈانتے وہ کہتی روکی تھی سامنے سے جاوید خود کھڑے ہوتے ہاتھ آگے بڑھاتا ہے
فائزہ نے پہلے تو آنکھو سے انکار کیا مگر پھر جاوید کی آنکھوں سے ہاتھو کو تھامنے کا اشارہ سمجھتے وہ پھر بھی نہیں تھامتی جاوید نے خود ہی سے ہاتھ تھام لیا
سٹیج پر آنے کے بعد وہ دونوں ساتھ بیٹھے مولوی صاحب نے نکاح شروع کر دیا مگر ابھی تک جمشید نہیں آیا تھا
مولوی صاحب کے کہے گے الفاظ کے بعد فائزہ نے تینوں بار قبول بولا اسکا آخری قبول کہنا تھا وہاں پر جمشید آیا
مولوی صاحب نے اب جاوید کی طرف رخ کیا
جاوید نے بھی تینوں بار قبول کیا جمشید کے تن من دھن میں آگ لگی تھی یہ نکاح دیکھ کر
” بند کرو یہ سب میں نہیں مانتا اس نکاح کو “
وہ چیخ کر بولا سبھی اسکی طرف دیکھتے ہیں بڑے ہی غصے سے وہ چل کر سٹیج کے پاس جا کھڑا ہوا فیزا اسکو دیکھتی رہ گئی وہ اب پہنچا تھا اور آتے ہی ایسے کہہ رہا تھا
” جمشید تم ” ۔۔
” اماں سائیں آپ کیسے نکاح کروا سکتی ہے انکا “
وہ سٹیج پر آتے پھر سے چیخا تھا جاوید کو غصہ دلانے میں جمشید نے کوئی کثر نا چھوڑی
” جمشید۔ کیا بھکی بھکی باتیں کر رہے ہو “
جاوید اٹھ کھڑا ہوا
” کیوں تماشا بنا رہے ہو یہاں پر سب عزت دار لوگ ہے کیوں جاہلوں جیسی باتیں کر رہے ہو “
پاس جاتے جاوید آہستہ آواز میں گرایا
” محبت ہے وہ میری “
جاوید کو دھکہ دیتے غصے سے چیختے کہا وہ مسلسل پاگلو جیسی باتیں کر رہا تھا وہاں پر سبھی لوگ حیران ہوئے فیزا تو ساکت سی ہو گئی تھی جس کو اسنے چاہا وہ اسکی بہن سے کھلے عام اظہارِ محبت کر رہا تھا کتنا مشکل ہوتا ہے
٫٫٫٫٫ خدا کرے تمہیں راس ہی نا آئے ،،،،،،
٫٫٫٫٫ مجھے چھوڑ کر کی گئی دوسری محبت،،،،،
” جمشیدددد۔ “
غصے میں کہیں تھپڑ نا مار دیتا وہ خود پر قابو رکھتا جمشید کا کالر پکڑتا ہے
” بھابھی ہے وہ تمہاری “
” نہیں۔ وہ صرف میری محبت ہے “
اسنے پھر سے دھکہ دیا اور اماں سائیں کے پاس بھاگا “
” دیکھے اماں سائیں میں نے پہلے نہیں بتایا تھا کیونکہ بھائی کا نکاح ہونے تک بات چھپانا چاہتا تھا مگر اب بتا رہا ہوں نا میں محبت کرتا ہو ان سے پھر یہ نکاح نہیں ہوا نا “
گھٹنوں کے بل بیٹھا وہ انکے قدموں تلے جان نکال گیا
” ان سے نکاح صرف میرا ہونا تھا میں محبت کرتا ہوں ان سے “
” جمشیدد “
اماں سائیں نے سرد تماچہ جمشید کو مارا کم از کم وہ اپنی زبان تو بند کرتا سب کے سامنے
” تمہاری صرف بھابھی ہے وہ اور خبردار جو ایک لفظ اور بولا مجھے شرم آ رہی ہے تمہیں اپنا بیٹا کہتے ہوئے “
جمشید کا چہرہ دوسری طرف ہی رہا فیزا اسے دیکھتی نم آنکھیں کرتی ہے دل درد سے پھٹ رہا تھا بے اختیار آنسو گال کو چھوئے تھے
” معازرت چاہتی ہو تابش بیگم رخصتی کا ٹائم ہو گیا ہے “
فائزہ تو خود حیران بیٹھی تھی اس لڑکے کے الفاظ سن سعدیہ بی نے فائزہ کا ہاتھ جاوید کے ہاتھ میں تھمایا
” چلو “
جاوید وہی پر بیٹھا آنکھیں غصے سے سرخ کر گیا ماتھے کی رگیں اُبھری ہوئی تھی جیسے تیسے کر رخصتی ہوئی جمشید کے کیے گے تماشے سے سب پریشان تھے انہوں نے پورے رستے کوئی بات نا کی وہ حویلی آئے تو پوری حویلی سنسان پڑی تھی
R k novels
ان دونوں نے کافی انجوائے کیا تھا ہاشم کو سکیٹنگ آتی تھی مگر امرحہ نے آج پہلی بار سیکھنا شروع کیا تھا وہ کئی بار برف کے میدان میں گری تھی ہاشم اسکو گرتے دیکھ مسکراتا تھا جبکہ امرحہ کا منہ بن جاتا
سکینہ بی اور ڈرائیور انکے ساتھ ہی تھے جو بھی ہوتا آج دونوں مسکرا رہے تھے
” ہاشم تم نے بہت مزاق بنایا ہے میرا “
پورے ہال میں سنو فالونگ سے میداں برف بن گیا تھا وہ دونوں برفانی کوٹ اور کیپ میں تھے
امرحہ نے وہاں پر سائڈ کے بینچ پر بیٹھتے کہا
” اوفف امرحہ جی آپ خود گر جاتی تھی بار بار اور مجھے ہنسی آ جاتی تھی اپکو گرتے دیکھ “
بینچ پر بیٹھتے ہاشم مسکراتے کہتا ہے
” سیکھ جاؤ گی ایک دن “
ایک آئی برو اوپر ہجاکتی وہ فخر سے بولی
” ایک بات پوچھو ہاشم “
امرحہ کے پیار سے کہنے پر ہاشم پھر سے مسکرایا
” جی “
امرحہ نے پہلے خاموشی بنائی رکھی پھر خود مطلبی ذکر چھیڑا
” تم میری ہر بات مانتے ہو کیا یہ بات بھی مانو گے “
ہاشم کے چہرے پر مسکراہٹ زرا ہلکی پڑی تھی
” جی مانو گا آپ بتائے مجھے امرحہ جی “
وہ مسلسل امرحہ کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا
” مجھے واپس پاکستان جانا ہے “
آخر کر ہی ڈالی اپنے مطلب کی بات امرحہ نے ہاشم کی رونق پل بھر میں غائب ہوئی
” آپ۔ بس اتنی سی بات ہے آپ چلی جائیے گا مگر سب سے ملنے کے بعد جلدی واپس آئیے گا میرے پاس میں ویٹ کرو گا آپکا امرحہ جی “
امرحہ کے گال پر گری برف کی روئی کو اپنی سرخ و سفید رنگ کے ہاتھوں سے صاف کرتے وہ بولا امرحہ نے ایک پل کے لیے ہاشم کو غور سے دیکھا
” نہیں ہمیشہ کے لیے جانا ہے مجھے واپس پاکستان”
وہ خود غرض بنی ہاشم پر ستم گراتی ہے ہاشم نے ہاتھو کو فوراً پیچھے دھکیلا
” میں آپکی ہر بات مانتا ہو پر آپ “.
سر جھکائے الجھا
” مجھے واپس پاکستان جانا ہے ہاشم مگر میں واپس آؤ گی “
ہاشم نے بینچ سے اٹھتے اپنا رخ امرحہ کی طرف کیا
” پرومس کرے کہ آپ میرے پاس واپس آئے گی “
اپنے چھوٹے ہاتھوں سے وہ وعدہ مانگ رہا تھا
” آئی پرومس ہاشم میں واپس آؤ گی تم بہت اچھے ہو میرے برگر “
نیچے گھٹنو کے بل برف پر بیٹھتی وہ فوراً سے ہاشم کو ہگ کرتی ہے
” ایک بات کہو امرحہ جی “
امرحہ کے دور ہونے پر ہاشم نے سوال پوچھا
” آپ مجھے یہاں پر انجوائے کرنے کے لیے لائی تھی صرف یہ منوانے کے لیے کہ میں اپکو جانے دو گا تو آپ میرا یقیں کرے میں آپ کو جانے دیتا آپ ایک بار کہتی مگر تھینکس اپنے مجھے بہت انجوائے کروایا “
امرحہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ ہاشم اسکو کیسے سمجھ گیا تھا کہ وہ صرف اسکو پاکستان واپس جانے کے لیے راضی کروانے کے لیے یہاں پر لائی تھی دادو کی بات پر اب یقیں ہوا تھا کہ ہاشم بہت ذہین لڑکا ہے
” آپ خوش نہیں “
ہاشم نم آنکھوں سے مسکراتے امرحہ کے گالو پر انگلی سے سمائل بناتے کہتا ہے
” چلیں ابھی مجھے وہ والا جھولا بھی لینا ہے آپ کے ساتھ امرحہ جی “
ہاشم اسکو کھڑا کرتے اپنے ساتھ جھولوں کی طرف لے گیا امرحہ خوش تھی واپس جانے پر جبکہ ہاشم جھوٹی مسکراہٹ سے مسکرا رہا تھا