ہاشم بیڈ پر لیٹا امرحہ کو مسلسل دیکھے جا رہا تھا جسکا رخ اسکی طرف تھا وہ صوفے پر لیٹی آنکھیں بند کر سونے کی جدوجہد میں تھی
” امرحہ جی کیا آپ سو گئی ہے “
ہاشم نے دبی دبی آواز میں کہا مگر امرحہ نے سن لیا تھا
” نہیں میرے برگر “
آنکھے کھولتے وہ جواب دیتی ہے
” آج آپ میرے پاس لیٹ جائے پلیز “
امرحہ نے آنکھیں چھوٹی کی اسکے سوال پر
” کیوں “
وہ ابھی تک وہی پر لیٹی سوال جواب کر ہی تھی
” آپ چلی جائے گی نا واپس اس لیے کہہ رہا ہوں میں پکا اس دن کی طرح کچھ بھی نہیں کرو گا پکا “
دل کی بات ہونٹوں پر آئی تھی امرحہ نے اسکی مان ہی لی اور اٹھتے بیڈ پر آکر لیٹ گئی
” تھینکس امرحہ جی “
آنکھیں بس امرحہ کو دیکھے جا رہی تھی دونوں کا چہرہ آمنے سامنے تھا ہاشم کو خوش دیکھ وہ زرا مسکرائی
” ایک بات پوچھو امرحہ جی “
ہاشم نے امرحہ کی برائون آنکھو کے اندر جھانک کر اپنا سکون تلاش کیا
” میرے بڑے ہو جانے پر آپ مجھ سے بھی عشق کرے گی “
” چپ کرو اور سو جاؤ “
گال کو تھپتھپی دیتے امرحہ نے آنکھیں بند کی
” جب میں بڑا ہو جاؤ گا تب آپ کو گھڑ سواری اسکیٹنگ اور عشق سیکھاؤ گا امرحہ جی “
ہاشم نے دل میں کہا تھا اگر امرحہ کو پتا چلتا تو وہ ناراض ہوتی اٹھ جاتی اس لیے یہ الفاظ وہی جانتا تھا
” آپ بہت اچھی بچی ہے امرحہ جی “
امرحہ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھری ہاشم کا اسکو بچی کہنا
” اوکے جی میرے برگر “
امرحہ کو مسکراتے دیکھ ہاشم نے بے ساختہ ہاتھ اسکے چہرے پر کیا
” مگر جب میں بڑا لڑکا بن جاؤ گا تب آپ بوڑھی ہو جائے گی نا “
امرحہ کی ہنسی کنٹرول سے باہر تھی
” کیوں کیا پھر عشق نہیں کرو گے مجھ سے “
ہاشم جلدی سے اوپر ہوتے امرحہ کے ماتھے پر بوسا دیتا واپس اپنی پوزیشن میں آیا جبکہ وہ زرا فاصلے پر لیٹا
” عشق کرو گا بلکل عشق جیسا مگر صرف آپ سے اور ہمیشہ امرحہ جی “
بس اتنا ہی کہنا تھا ہاشم نے وہ فوراً سے آنکھیں بند کرتا نیند میں گم سا ہوا مگر امرحہ اسکے الفاظ ابھی تک دوہرا رہی تھی زہن میں
R k novels
















” ماضی “
تابش بی کو فوت ہوئے دو دن گزر چکے تھے فیزا فائزہ اسکے پاس ہی رہی اسنے کئی بار اسرار کیا کہ میرے ساتھ چلو فیزا انکار کر دیتی وہ خود بھی تو حویلی سے زیادہ دن باہر نہیں رہ سکتی تھی آخر جانا واپس جاوید کے گھر ہی تھا نا
” شکر ہے سو گئی “
فیزا کے پاس سے اٹھتے فائزہ نے جوتا ڈالتے کہا وہ بڑی مشکل سے سوئی تھی سعدیہ بی انکے ساتھ ایک ہی کمرے میں تھی وہ خود ادھیڑ عمر ہو جانے کی وجہ سے زیادہ نہیں جاگ سکتی تھی اس لیے وہ بھی ان کے پاس سو گئی
” جاوید نے پتا نہیں کھانا کھایا ہوگا بھی کہ نہیں”
خود کلامی کرتے وہ باہر نکلی کیونکہ وہ ان دنوں اپنی روٹین سے ہٹ چکے تھے فائزہ نے بس تھوڑی دیر کے لیے فیزا کو اکیلے چھوڑا اور جاوید کے کمرے میں آئی
” آپ ابھی تک سوئے نہیں جاوید “
سامنے چکر کاٹتے جاوید کو دیکھ فائزہ نے فکری سے سوال پوچھا
” فائزہ “
جاوید نے اسکو دیکھتے بھاگتے پاس آتے اپنے سینے میں چھپایا جیسے وہ فکر میں تھا اور اسکو سامنے دیکھتے ظاہر کی
” کیا ہوا ہے آپ کو جاوید “
سر اٹھاتی وہ جاوید سے پوچھتی ہے
” تمہاری فکر ہے بس “
سر پر ہاتھ رکھتے وہ دوبارہ سے خود میں قید کرتا ہے
” اور کیوں ہے “
اسںے بھی اپنے بازوؤں جاوید کے گرد کیے
” تم پریشان مت ہو میں سب دیکھ لو گا ہم فائزہ کو اپنے ساتھ گھر لے جائے گے وہ گھر بھی تو اسی کا ہے “
بالوں میں شدت سے لمس دیتا وہ محبت سے بولا فائزہ کو اچھا لگ رہا تھا جاوید کا فکر کرنا
” چپ کر کے یہاں پر بیٹھے میں کھانا لے کر آتی ہو “
خود ہی الگ ہوتی وہ بولی جاوید کو بیڈ پر بیٹھانے کے بعد وہ کھانا لینے چلی گئی اسکو پتا تھا کہ جاوید نے کچھ نہیں کھایا ہوگا اور ہے بھی ایسا ہی تھا کیچن اوپر والے پورشن میں ہی تھا اس لیے ہال کے نیچے نہیں جانے کی ضرورت پیش آتی تھی
کیچن میں آنے کے بعد اسنے کھانا سیٹ کیا مگر تبھی اچانک لائٹ چلی گئی سب کے سونے کی وجہ سے کسی کو پتا تو نہیں تھا مگر جاوید نے فائزہ کو اکیلے کیچن میں سوچتے خود اپنا رخ باہر کو کیا
” اس کو بھی ابھی جانا تھا “
فائزہ نے کھانے کا ٹرے وہی پر چھوڑا اور آہستہ سے رستہ پہچانتے وہ چلنے لگی
کسی کو فون یوز کرتے دیکھ فائزہ نے جاوید سمجھا وہ یہی خیال لاتی اسکے پاس آئی
” جاوید پلیزز لائٹ چیک کریں اچانک ہی چلی گئی ہے “
اسنے کمر کر کھڑے شخص کو جاوید سمجھتے ہاتھ سے پکڑ کر رخ اپنی طرف کیا
” تتم تم “
فون کی سکرین سے آتی روشنی میں اسنے جمشید کو دیکھا ہاتھ تو وہ پکڑ ہی چکی تھی مگر تبھی ہاتھ چھوڑرتے وہ انبیلنس ہوتے نیچے جا گرنے لگی تھی جمشید نے فوراً سے آگے ہوتے اسکو سمبھالا تھا
” دھیان سے “
جمشید نے طنزیہ یک طرفہ مسکراہٹ دباتے کہا فائزہ کو اس وقت سب سے برا لگ رہا تھا اسنے فوراً ہڑہڑی میں ایک تھپڑ رسید کیا
” یہ کیا حرکت ہے جمشید “
جمشید کا چہرہ دوسری طرف ہوا اسنے بھی کمر سے ہاتھ چھوڑا مگر فائزہ نیچے جا گرنے کے خوف سے اسکو شرٹ سے پکڑتی ہے جسکی وجہ سے وہ دونوں گرے تھے ایک ساتھ
” جمشیددد “
پورے ہال کی خاموشی کو جاوید کی آواز نے توڑا تھا وہ تو یہ سوچ کر کمرے سے باہر آیا تھا کہ فائزہ ڈرے نا مگر سیڑھیوں کے قریب یہ منظر دیکھ خون کو آگ لگی تھی
” سوری “
جمشید نے جلدی سے کھڑے ہوتے کہا وہ خود بھی نہیں جانتا تھا کہ یہ سب کیسے ہوا وہ زرا دور کھڑا ہوا فائزہ جلدی سے اٹھتی جاوید کے پاس چلی آئی
” جاوید آپ غلط سوچ ۔۔۔۔ “
فائزہ کے الفاظ وہی پر روکے جب جاوید کی آنکھوں میں خونی غصہ دیکھا وہ ایک نظر فائزہ کو دیکھتے سیدھا جمشید کے پاس آیا مگر تبھی لائٹ دوبارہ سے آئی
” میں سب کچھ برداشت کر سکتا ہو جمشید مگر یہ کبھی نہیں”
جاوید نے سیدھا جمشید کے منہ پر پنچ پر پنچ دے مارے وہ چیخ بھی تو رہا تھا جیسے اسکے تن من دھن میں یہ اک منظر آگ لگا گیا ہو
” بس بھائی میں نے کچھ غلط نہیں کیا پہلے ان سے پوچھ تو لے “
اپنے کنارے سے زخمی ہونٹوں پر ہاتھ رکھتا وہ بولا
” بکواس بند کرو جمشید “
وہ اتنا زور سے چیخا تھا کہ فیزا کی خوف سے نیند ٹوٹی سعدیہ بی نے فوراً سے آنکھیں کھولیں
” بھائی “
جاوید نے سخت دباؤ سے ایک مکہ اور دے مارا تھا جمشید نے بھی چیختے اسکا نام لیا وہ مسلسل اسکو مارے جا رہا تھا
” آپ اپنی بیگم سے پوچھ لے اگر میں نے کچھ غلط کیا ہو “
جمشید نے رخ فائزہ کی طرف کیا جاوید کو غصہ دیلا رہا تھا جمشید
” آپ بتاتی کیوں نہیں کچھ کہ میں نے کچھ غلط نہیں کیا “
فیزا نے بھاگتے باہر کو رخ کیا سامنے جمشید کو آپی کے ساتھ کھڑے دیکھ اسکی نظر زخمیوں پر گئی
” چپ کیوں ہے آپ “
جمشید نے ہاتھ پکڑ کر جھنجھوڑ کر کہا جاوید نے ایک ہی پل میں اسکو اپنی طرف کھینچتے اتنے غصے میں تھپڑ مارا کہ پل بھر کے لیے سہم گیا مگر فیزا کی تو جان پر بنی تھی
” خبردار جو ہاتھ لگایا ” جاوید نے آنکھیں دیکھاتے کہا
سعدیہ بی ان دونوں کو پاگلو کی طرح لڑتے دیکھ بھاگی آئی
” میں نے ہاتھ نہیں لگایا بلکہ انہوں نے مجھے شرٹ سے پکڑا تھا “
بس اتنا ہی سنا تھا جاوید نے کالر سے پکڑتے اسنے ایک اور پنچ دے مارا مگر جب کالر چھوڑا تو جمشید لڑکھڑا کر سیڑھیوں کے قریب ہونے کی وجہ سے نیچے جا گرا وہ ہر سیڑھی سے بل کھاتے نیچے گرتے آیا تھا فیزا نے منہ پر ہاتھ رکھا جبکہ اب جاوید ساکت ہوا
” جمشید۔ “
جو بھی تھا وہ بھائی تھا اسکا وہ بھاگتے نیچھے آیا فائزہ وہی کی وہی رہی سعدیہ بی کی جان نکلی تھی یہ سب دیکھ
” جمشید “
فرش پر گرے جمشید کو دیکھ وہ ڈرا ماتھے کی کن پٹی سے خون بہنے لگا سر سے بھی خون کا بہاؤ شروع ہوا آنکھیں بند ہو رہی تھی جاوید نے اسکے پاس جاتے اٹھانے کی کوشش کی
” دور ہٹے آپ جمشید سے “
فیزا بھاگتی ہوئی نیچے آئی اور جاوید کو دھکہ دیتی دور کیا
” جمشید آپ ۔۔ پلیزز آپی۔ ان کو ڈاکٹر کے پاس لے چلے “
جمشید کی بند ہوتی آنکھیں دیکھ وہ خوف سے چیخ کر کہتی ہے پہلے تابش بی کو کھو دیا اور اب جمشید کو نہیں کھونا چاہتی تھی
” وہ۔ وہ محبت۔ ہے میری۔ “
جمشید نے انگلی سے فائزہ کی طرف اشارہ کرتے کہا فیزا نے ایک نظر پیچھے دیکھا تھا اپنی بہن کو اور روتے نفی میں سر ہلایا
R k novels
















” میرا فرسٹ اگزیم کا ریزلٹ آ گیا ہے امرحہ جی “
کمرے میں بھاگتے ہوئے وہ اندر آتے کہتا ہے امرحہ بیڈ پر بیٹھی بکس میں ابھی تک سر دیتی پڑھ رہی تھی ہاشم کو خوش دیکھ وہ بکس کو سائڈ پر کرتی ہے
” واؤ لگتا ہے کہ بہت اچھا آیا ہے “
امرحہ نے اٹھتے اپنے کندھوں پر دوپٹہ سیدھا کیا
” ایسے کیسے آپ کو پتا چل گیا ہے “
سوالی نظریں بنائے وہ امرحہ کے پاس آیا
” ہمم مجھے تو تمہاری خوشی سے پتا چلا ہے اچھا پھر بھی تم بتا دو “
وہ دونوں آمنے سامنے کھڑے تھے ہاشم نے کچھ سوچتے جواب دیا
” نہیں پہلے مجھے کس کرے جہاں پر تھپڑ مارا تھا پھر ریزلٹ بتاؤ گا “
اپنی ڈیمانڈ پیش کرتا وہ سینے پر ہاتھ باندھتے امرحہ کو مسلسل دیکھے جا رہا تھا
” پہلے میری ہر بات مانتے تھے اب منواتے ہو مجھے پتا ہے اچھا ہی ہوگا ریزلٹ “
وہ واپس کو مڑی تو ہاشم جلدی سے سامنے کھڑا ہوا
” آپ نہیں کرے گی “
معصوم سی شکل بنائی تھی ہاشم نے
” جب بڑے ہو جاؤ گے تب کرو گی اب جاؤ “
” نہیں میں بڑا ہوں پورے بارہ سال کا ہوں آپ میری وائف ہے میں جو کہو گا آپ وہی کرے گی”
عجیب ہی انداز تھا جیسے امرحہ کا انکار کرنا ہاشم کو جی جاں برا لگا ہو
” میں نے پہلے بھی کہا ہے تم ایسی باتیں نہیں کرو گے تو بات مانتے کیوں نہیں “
امرحہ نے ماتھے پر بل ڈالتے دیکھتے کہا
” آپ مجھے ہرٹ کر رہی ہے “
یک دم آنکھیں نم ہوئی تھی امرحہ کے غصے کو دیکھ کر وہ پیچھے کو بھاگتے کمرے سے باہر چلا گیا امرحہ کو یہ لڑکا سمجھ نہیں آتا تھا کبھی ہر بات ماننا اور کبھی ضد لگانی
ہاشم ناراض ہوتے اپنی مما کے کمرے میں چلا گیا امرحہ نے ٹائم نوٹ کیا تو دس بج رہے تھے وہ کمرے سے باہر جانے لگی تو فون رنگ سنی اسنے واپس میز پر آتے فون کال ریسیو کی
” دیکھو امرحہ جلدی سے واپس آؤ تمہارے بابا کی طبیعت ٹھیک نہیں میں کچھ بھی نہیں سنو گی “
” مگر مما بابا کو کیا ہوا ہے “
امرحہ نے فوراً سے تڑپ کر پوچھا
” مجھے کچھ نہیں پتا اگر آنا ہے تو آ جاؤ ورنہ وہی پر رہو “
فوراً سے جواب سناتی وہ کال کٹ کر دیتی ہے امرحہ پر تو پھاڑ توڑا تھا تسمیہ بی نے
” کتنی بیواقوف ہو تم امرحہ مگر بہت جلد ملاقات ہو گی آخر میں نے جو بلوایا ہے “
تسمیہ بی شیطانی مسکراہٹ سے مسکراتی کہتی کمرے میں بیٹھی شخصیت کو دیکھ پھر مقابل سے بھی ایسا ردعمل ملا
” بابا کو پلیزز کچھ مت ہو پلیزز اللہ جان”
وہ فوراً سے کمرے سے باہر بھاگی اور اماں سائیں کے کمرے میں بھاگتی آئی
” خالہ جان بابا کی طبیعت ٹھیک نہیں پلیزز مجھے جانے دے واپس “
ہاشم اسکے کمرے میں آتے ہی پہلے لفظوں پر چونکہ وہ دونوں کھڑکی سے باہر دیکھتے باتیں کر رہے تھے جہاں سے سنو فالونگ نظر آتی تھی مگر امرحہ کے آنے پر اماں سائیں نے ویل چیئر اسکی طرف کی
” یہ خبر کس نے دی تمہیں “
اماں سائیں نے شکی نظرو سے پوچھا جیسے انکو یقین ہی نا آ رہا ہو
” مما نے ابھی بتایا ہے “
امرحہ فوراً سے انکے قدموں میں جا کر بیٹھی ہاشم کو یقین تھا کہ وہ اب چلی جائے گی پتا تو اب چلا تھا کہ دو ہفتے کس نے روکے رکھا امرحہ کو
” رو مت اللہ سب ٹھیک کرے گا “
امرحہ کو سر جھکائے دیکھ انہونے نے سر پر ہاتھ رکھتے سہارا دیا ہاشم آہستہ سے کمرے سے باہر بھاگ گیا امرحہ نے اسکو جاتے تک نا دیکھا مگر اماں سائیں نے یہ نوٹ کر لیا تھا
” میں سکینہ بی سے کہہ دیتی ہو تمہارے جانے کی تیاری کریں اٹھو نیچے سے ایسے نہیں بیٹھتے”
امرحہ کو اٹھاتے انہوں نے پیار سے کہا
” وہ چلی جائے گی اب اور پھر بہت دیر کے بعد آئے گی “
ہاشم نے کمرے میں آتے ہی بیڈ پر أمندے منہ لیٹتے روتے کہا
” میں۔۔۔ کیسے رہو گا ان کے ۔۔۔۔۔ بغیر پلیزز مت جانے دے انکو ۔۔۔۔ اللہ جان “
آنسو نکلتے تکیے میں جذب ہو جاتے اور نجانے کتنے ہی جذب ہوئے تھے
” یہ خواب ہے۔۔۔۔۔۔ نا وہ نہیں جا رہی تھی ۔۔۔۔۔پھر کیسے ایک دم۔۔۔۔۔۔ جا سکتی ہے “
رونے سے آنکھیں بھی سرخ ہو رہی تھی اور سانس بھی بچوں جیسا لے رہا تھا جیسے بچے روتے لیتے ہے اٹک اٹک کر
جیسے تیسے کر رات کی فلائٹ کا ٹائم ملا تھا بابا کا سن کر یہ بھی حوش نا رہی کہ ہاشم کس حال میں ہوگا وہ ایک آخری ملاقات کرنے اسکے کمرے میں گئی مگر وہ روتے روتے ہی سو چکا تھا امرحہ نے قریب جاتے ہاشم کے پاس بیٹھتے اسکو ایک نظر غور سے دیکھا جو نیند میں تھا
” سوری ہاشم میں مل بھی نہیں رہی “
وہ اسکو نیند سے بیدار نا کرتی ماتھے پر جھک کر بوسا دیتی ہے اور یہ لمحہ سب سے حسین تھا
” میرا کیوٹ برگر بس جلدی سے بڑے ہو جاؤ”
کمفرڈ کو سیدھا کرتے وہ ایک نظر جی بھر کر دیکھتی ہے
” آپکی فلائٹ کو ٹائم ہو رہا ہے چھوٹی سائیں”
سکینہ بی نے سر جھکائے کہا جیسے امرحہ کے جانے کا سن سب بجھ سے گے ہو
” میں خالہ جان سے ملنا چاہتی ہو “
وہ کہتی ایک آخری نظر ہاشم کو دیکھتی ہے دل تو کیا کہ اٹھا لے نیند سے مگر وہ کیسے اسکی آنکھو کے سامنے جا سکتی تھی مگر بابا سے آگے تو کچھ نہیں تھا ملازمہ کے ساتھ کمرے سے باہر نکل کر وہ اماں سائیں کے کمرے میں گئی
” خالہ جان”
امرحہ نے اماں سائیں کے پاس جاتے کہا جو ویل چیئر کھڑکی کے پاس کر بیٹھی تھی
” جا رہی ہو “
امرحہ کو سامنے دیکھ انہونے نے نظر انداز لہجے میں پوچھا
” جی مگر میں ان شاءاللہ واپس آؤ گی “
اسنے اماں سائیں کو دیکھتے کہا تو وہ آگے سے مسکرائی
” مجھے نہیں لگتا کہ ایسا بھی ہوگا کبھی مگر ایک بات یاد رکھنا تمہیں زندگی کے کسی لمحے میں یہ سمجھ آئے گا کہ جب کوئی اپنا چھوڑ کر چلا جائے تو اسکے واپس آنے پر رشتوں میں سے کچھ رشتے آدھے ہو جاتے ہے اور جب تم بھی واپس آؤ گی نیویارک تو کچھ رشتے ختم ہو چکے ہوگے بس یادیں رہے گی “
امرحہ نے انکے چہرے پر عجیب احساس دیکھا جیسا کہ وہ کچھ راز بتا رہی ہو اور امرحہ سمجھ نہیں رہی ہو وہ گہری بات جو کر گئی تھی
” تم مجھے بہت عزیز ہو امرحہ بلکل ہاشم کی طرح یہ بات تمہیں وقت کے گزرنے پر معلوم ہوگی اب جاؤ خوش رہو ہمیشہ میری بچی “
ملازمہ نے دروازے کو ناک کیا امرحہ کی نظر باہر سکینہ بی پر گئی تھی جن کے ہاتھ میں سوٹ کیس تھا وہ ایک نظر پھر سے اماں سائیں کو دیکھتی ہے اور فوراً سے انکے سینے سے لگی
” مجھے سب بہت یاد آئے گے “
اماں سائیں نے پھر سے سر پر ہاتھ رکھا اور امرحہ نے آنکھیں بند کر لی
” خداوند خیر”
امرحہ کو گلے ملتے انہوں نے کہا اور وہ جدا ہوتی وہاں سے چلی گئی اماں سائیں نے کھڑکی سے اسکو نیچے گارڈن سے جاتے دیکھا تھا
” تسمیہ “
انہوں نے بس ایک لفظ ہی بولا تھا امرحہ سیاہ کار میں بیٹھی اور دیکھتے کار آنکھ اوجھل ہو رہی تھی جبکہ وہ اب پھر سے مسکرائی تھی جیسے جانتی ہو تسمیہ کو اور یہ بھی کہ اسنے جھوٹ بولا ہے امرحہ سے کچھ راز تو اماں سائیں کو بھی پتا تھے مگر وہ خود چھپا رہی تھی ابھی ہاشم اور امرحہ سے سب
امرحہ نے کار کے شیشے سے اس بڑی عمارت کو دیکھا جہاں صرف چند دن گزارے تھے ایک نظر اس جھولے پر گئی جہاں پر ہاشم اور امرحہ جھولے لیتے باتیں کرتے تھے پھر گاڑی کے چلنے پر سب لمحے دور چلے گے
R k novels
















” ماضی”
پورے کمرے میں خاموشی تھی سعدیہ بی اپنے بیٹے کے پاس اسی کمرے میں تھی جس کمرے میں وہ ایڈمٹ تھا بیڈ پر لیٹے نو جوان بیٹے کو دیکھتے دل تڑپتا تھا ماتھے سے سر تک پٹی تھی تھپڑ اور مکوں کی وجہ سے ہونٹ بھی زخمی تھے ہارٹ بیٹ کا پتا مشین کی چلتی لائن سے لگتا تھا وہ صوفے پر بیٹھی اپنے بیٹے کو دیکھ رہی تھی
” میں کیسے یقین دلاؤ کہ جمشید صرف میرے لیے میرا چھوڑا بھائی ہے نجانے وہ کیوں میرے اور جاوید کے رشتے میں الجھنے بنا رہا ہے “
فائزہ سعدیہ بی سے کہتی رونا شروع کرتی ہے
” میرا یقین کرے مجھے اس وقت بہت برا لگ رہا ہے میں نہیں چاہتی تھی کہ جمشید کے ساتھ ایسا ہو میں صرف جاوید سے محبت کرتی ہو “
وہ مسلسل رو رہی تھی سعدیہ بی نے چپ کروانا چاہا
” چپ کرو اور جا کر فیزا کو دیکھو وہ کہاں پر ہے “
” نہیں اماں سائیں آپ کیوں نہیں سمجھتی جاوید سے نظرے بھی نہیں ملا پا رہی وہ کیا سوچتے ہو گے مجھے لے کر “
جمشید کو ہوش آ رہا تھا وہ ساری باتیں سن رہا تھا مگر کوئی حرکت نا دیکھائی وہ سب سنا چاہتا تھا جس سے محبت کی وہ ہمیشہ اسکو بھائی سمجھتی تھی
” مجھے جاوید کی قسم میں مر جاؤ گی مگر کسی اور سے حرام کی محبت تو کیا خیال تک نہیں لاؤ گی”
یہی الفاظ تھے جن کو سن جمشید کی بند آنکھوں سے آنسو رواں ہوئے
” چپ کر جاؤ بیٹا چپ کر جاؤ “
سعدیہ بی نے خود کی حالت بھی غیر سی کی
” ف۔ فیز۔۔ فیزا۔۔ “
سعدیہ بی نے جمشید کی آہستہ آواز سنی تو فوراً سے اسکے پاس آئی فائزہ وہی دور کھڑی رہی شاید خوف آنے لگا تھا اس شخص سے
” اماں سائیں فیزا۔ “
آنکھیں کھولتے وہ ہمت کرتا اٹھ کر بیٹھا
” لیٹے رہو میرے بچے “
نم آنکھوں سے بھی وہ پیار سے بولی جاوید ہاتھ میں کچھ فائلز پکڑے اندر داخل ہوا تھا سامنے جمشید کو ہوش میں دیکھتے وہ خوش ہوا
” مجھے فیزا پاس جانا ہے “
جلدی سے ڈرپ اتارتے وہ بیڈ سے نیچے اترا
” میں اس کو اندر بلوا لیتا ہو تم لیٹے رہو جمشید”
جاوید کی سن کر بھی ان سنی کرتا وہ باہر بھاگا تھا باہر آنے پر کئی لوگ اپنے پیشنٹ کے ساتھ چل رہے تھے وہ بس فیزا کو دیکھنا چاہتا تھا نجانے ایک ہی پل میں فیزا کو دیکھنے کا جنون سوار ہوا تھا وہ سچ میں جنونی شخص لگ رہا تھا کئی بینچ کئی کمرے دیکھنے پر بھی وہ نہیں نظر آ رہی تھی جمشید پاگلوں کی طرح اردگرد دیکھتا بس ایک نظر کی تلاش میں تھا
” اگر آپ مجھ سے سب چھین لے گے تو میں کیسے رہو گی واحد جمشید ہے میرا سب کچھ مما کے بعد ان کو کیسے کھو دو “
سیاہ شال چاروں اطراف لیئے وہ ویٹنگ ایریے میں بیٹھی ہاتھوں میں تسبیح کا ورد کرتی جمشید کی زندگی مانگ رہی تھی مگر یہ نہیں معلوم وہ اسکو پاگلوں کی طرح ڈھونڈ رہا تھا
اچانک اس گیلری میں گزر ہوا نظر انداز نظر پڑی تھی وہ آگے کو بھاگنے کے ارادے رکھتا تھا مگر دل نے اجازت نا دی یہ احساس محسوس کر کہ یہی پر ہوگی سکوں کی تسکین
” فیزا “
وہ چلتے اسکی طرف آیا فیزا نے آنکھیں کھولی تو حیران ہوئی کیسے دل کے مانگنے پر اللہ نے سب دیا تھا
” کیا پاگل ہو پیشنٹ کے ساتھ آئی ہو تمہیں چاہیے تھا کہ کمرے میں رہتی “
فوراً سے پاس آتے وہ فیزا کے قدموں میں بیٹھا
” پلیزز کمرے میں””۔ ۔۔۔
“۔ چپ کرو۔ اور یہی پر بیٹھی رہو “
اسکو اٹھتے دیکھ وہ حکم سناتے بولا
” مجھ سے نکاح کرو گی “
دل کو اور کیا چاہیے تھا یہ الفاظ زندگی کے برابر لگ رہے تھے قدموں میں بیٹھے شخص پر یقین نہیں تھا وہ سیدھا ہوتے بیٹھتے تسبیح والے ہاتھوں سے جمشید کا چہرہ تھامتی ہے
” جی۔ جی۔ کرو گی۔ مگر آپ کبھی رات کو میرے گھر نہیں آئے گے میں نہیں چاہتی میرے ہیرو لنگڑے بن جائے ہمارے گھر کا کتا آپ کو چھوڑے گا نہیں اگر اب رات کو آئے آپ “
اسنے روتے ہوئے کہا تھا وہاں پر اب سبھی آئے تھے جمشید نے مسکراتے فیزا کو دیکھا جو مسلسل جمشید کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی مگر ایسی بھی کیا محبت جو یک دم اپنا بنانے پر سوار ہو جائے ایسا تو تبھی ہوتا ہے جب کسی کو جیتنا جنون ہو کسی کو ہرانا شوق ہو مگر جمشید کا یک دم نکاح کا کہنا فیزا کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی