امرحہ جاوید آپکا نکاح ہاشم جمشید سے سکہ رائج الوقت تیس لاکھ میں کیا جاتا ہے کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے ؟؟!؟؟
وہ سرخ دوپٹہ آڑھے خاموش سی بیٹھی تھی ہال میں اس وقت کسی میت کے برابر ماحول تھا اس معصوم سی بچی پر قہر تھا آج ” اے لڑکی جلدی قبول کرو کیوں چپ ہو ” اپنی ماں کے الفاظ سن وہ کرب کھاتی آنکھیں بند کرتی ہے اور چند آنسو اسکی جھولی میں جا گرے تھے امرحہ جاوید آپکا نکاح ہاشم جمشید سے سکہ رائج الوقت تیس لاکھ میں کیا جاتا ہے کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے ؟!؟ ” قبول ہے ” اسکے الفاظ پر تسمیہ بی کو چین ملا تھا ایک لمبا سکون کا سانس خارج کرتی وہ طنزیہ مسکرا رہی تھی ” قبول ہے ” ” قبول ہے ” وہ تینو بار ہاں کر چکی تھی دل میں گھٹن تھی وہ کیسے اپنے چھوٹے بھائیوں کے عمر والے لڑکے سے نکاح کر سکتی تھی وہ یہی سوچ رکھتی تھی جب کانوں میں آواز سنائی دی “بڑی بیگم صاحبہ ابھی ابھی خبر ملی ہے ہسپتال سے کہ اماں سائیں کا انتقال ہو چکا ہے” ملازمہ کے الفاظ ہی کافی تھی امرحہ کی جان لینے کے لیے جن کے لیے وہ یہ رشتہ قبول کر چکی تھی جن کی چاہ میں آڑ میں وہ اس رشتے کے مکمل ہونے پر دنیا سے ہی رخصت ہو چکی تھی “کوئی نہیں اللّٰہ خیر کریں گا عمر گزار کر ہی گئی ہے” تسمیہ بی طنزیہ کہتی مولوی صاحب کو جانے کا کہتی ہے “کیسے کوئی اتنا بے حس ہو سکتا ہے” وہ دل میں سوچتی اپنا دوپٹہ اتار کر تسمیہ بی کی طرف نم آنکھوں سے دیکھ رہی تھی “پلیززز مما مجھے دادو کے پاس جانا ہے” “نہیں تم ابھی نہیں جا سکتی وہ تمہارا کمرے میں انتظار کر رہا ہے” تسمیہ بی اسکے پاس آتی ہاتھ پکڑتی کہتی ہے “مما دادو چلی گئی ہے اس دنیا سے اب تو مجھے انکے پاس جانے دیں آخر کس بات کی سزا ہے مجھے” وہ اپنا ہاتھ پیچھے کرتی چیخ رہی تھی جب اسکی ماں نے زرا بھی لحاظ کیے ایک سرد تھپڑ اسکے چہرے پر رسید کیا وہ پل بھر میں خاموش سی ہو گئی تھی “چپ کر کے کمرے میں چلو ورنہ تمہیں تمہاری دودو کے پاس کبھی نہیں جانے دو گی ابھی کل میت کا دن ہے ورنہ شکل تک نہیں دیکھنے دو گی تمہیں” امرحہ کو کلائی سے پکڑتی وہ اوپر والے کمرے میں لے جا رہی تھی اگر دیکھا جائے تو یہ گھر بلکل حویلی کی طرح نظر آتا تھا پرانے زمانے کے ڈیزائن پتھر عمارت کو بھی اسی طرح سے بنایا گیا تھا دو تین کمرے گزر جانے پر وہ ایک کمرے کے باہر رکتی دروازہ کھولتی ہے “جو تمہارا سائیں کہے گا تم وہی کرو گی سمجھ میں آئی بات” یک دم دروازے کے اندر دھکہ دیتی وہ باہر سے دروازہ بند کر دیتی ہے وہ کمرے میں آتی خیران ہوئی تھی بارہ سالہ بچا جسکی آنکھیں گرے کلر کی تھی بال ماتھے کو چھپاتے تھے اور رنگ بلکل سفید بدام جیسا پینٹ شرٹ میں ملبوس بڑے ہی آرام سے اپنے ٹیب میں گیم کھیل رہا تھا جیسے اسکو لڑکی کے آنے کی کوئی خبر ہی نا “آپ آ گئی ہے امرحہ جی” امرحہ کو سامنے دیکھتے اسنے بڑے ہی پیار سے پوچھا تھا وہ بلکل خاموش اسکے پاس جا کر بیٹھی “آپ خاموش کیوں ہے امرحہ جی” وہ ہر لفظ پر پیار لگاتا پوچھ رہا تھا “امرحہ جی” اس بار بھی الفاظ میں محبت تھی اور بچو کی آواز تو ہوتی ہی پیاری سی ہے “پلیزز ہاشم چپ کر جاؤ” وہ روتے کہتی گال بھیگو رہی تھی جب ہاشم کافی زیادہ پریشان ہو گیا اسنے فون کو جلدی سے سائڈ ٹیبل پر رکھا اور بیڈ کے نیچے اتر کر امرحہ کے سامنے کھڑا ہوا وہ بلکل بہت ہی کم قد رکھتا تھا اسنے آگے بڑھ کر امرحہ کا چہرہ اپنے ہاتھو کی پیالی میں لیا “امرحہ جی آپ رو کیوں رہی ہے پلیزز چپ کر جائے ورنہ میں نے بھی رونا شروع کر دینا ہے” اپنی آنکھوں میں بھی آنسو جمع کرتے وہ بولا تھا آواز بھی بھیگی بھیگی لگ رہی تھی ‘مجھے تم زہر لگتے ہو یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا ہے دور ہٹو پرے ہو جاؤ” ایک ہی لمحے میں ہاشم کو زور سے دھکا دیتی وہ پیچھے فرش پر گرا گئی تھی اسنے مسلسل رونا شروع کیا ہاشم کی بلکل بھی پروا نا تھی وہ اپنے ہاتھ شرٹ سے جھاڑتا اٹھ کر کھڑا ہوا “امرحہ جی” پھر سے امرحہ کے پاس جاتے اسنے پیار سے پکارا تھا “پلیز سوری غصہ مت کریں” فوراً سے امرحہ کو ہگ کرتے وہ بولا امرحہ کو ہاشم کا یہ عمل اور بھی شدید غصہ دیلا رہا تھا “دور ہٹو مجھے سے” امرحہ کا پھر سے غصہ دیکھانا ہاشم کو رونے پر مجبور کر رہا تھا “آپ کیوں غصہ کر رہی ہے امرحہ جی کیا مجھ سے کچھ غلط ہو گیا ہے” ہاشم کی معصومیت پر کس کا دل نا پگلتا پھر یہ امرحہ کیوں پتھر دل ہو گئی تھی “مجھے دادو کے پاس جانا ہے پلیزز ہاشم مجھے لے چلو” امرحہ کو سمج آیا کہ تسمیہ بی صرف ہاشم کی بات مانے گی تبھی تو وہ ہاشم سے کہتی ہے “بس امرحہ جی میں آپ کو دادو کے پاس لے جاتا ہوں پر آپ پلیزز روئے مت امرحہ جی” جتنی بار بھی نام لیا ساتھ جی لفظ سے گریز نا کیا امرحہ کو کلائی سے پکڑتا وہ اپنے ساتھ کمرے سے باہر لے کر آیا تو سامنے تسمیہ بی ان کو دیکھ کر خیران ہوئی “خالہ جان میں اور امرحہ جی دادو کے پاس جا رہے ہے آج رات ہم ہسپتال میں ہی رہے گے آپ بھی ہمارے ساتھ چلے گی” “ہاشم بیٹا آپکی دادو نہیں رہی اس دنیا میں آپ ہسپتال مت جائے اور ویسے بھی کل جنازہ ہو جانے پر آپکی اور امرحہ کی فلائٹ ہے واپس نیویارک میں اس لیے گھر پر ہی رہنا مناسب ہے” ہاشم نے تو ایک لفظ بھی نا بولا تھا جب دادو کا سنا وہ اب سمجھا تھا کہ امرحہ کیوں روئے جا رہی تھی اسنے ایک نظر امرحہ کی طرف دیکھا وہ آنکھو سے یہاں روکنے کو انکار کر رہی تھی ہاشم اسکا مطلب سمجھتے اسکو اپنے ساتھ گھر سے باہر لے آیا کیونکہ وہ امرحہ کی ہر بات مانتا تھا اور ماننے سے انکار کیسے کرتا وہ اسکو پسند تھی بس عمر کا فرق تھا امرحہ اٹھارہ سالہ اور ہاشم بارہ سالہ محبت میں عمر کا معیار نہیں دیکھا جاتا ابھی تو ہاشم کو امرحہ پسند تھی جب عمر کا سلسلہ بڑھتا تب پتا نہیں یہ پسند کیا روپ لیتی ۔ تسمیہ بی نے وہی پر کھڑے دیکھے یہ نوٹ کیا تھا کہ میرے کہنے کے باوجود بھی ہاشم امرحہ کو اپنے ساتھ لے گیا ہال سے ابھی باہر ہی نکلے تھے جب سامنے باڈی گارڈز کا ڈھیر اپنا اسلحہ کیے کھڑا تھا ” ہاشم سر آپ گھر سے باہر نہیں جا سکتے ” بلو ٹوتھ لگائے ایک گارڈ پاس آیا ” مجھے آپکی ہیلپ چاہیے پلیز جس ہسپیٹل میں دادو ایڈمٹ تھی اس ہسپیٹل لے چلے ” ” پر سر اوپر سے آرڈر ہے آپکی مما نے منع کیا ہے گھر سے باہر نکلنے کو صرف کل کی فلائٹ تک کی بات ہے ” ملازم ابھی تک اپنی بات منوانے کی کوشش میں تھا ” مما سے میں خود بات کرو گا بٹ آپ میری بات مانے جسٹ ناؤ ” ہاشم زرا سخت لہجے میں بولا تھا کیونکہ گارڈز بات بھی ایسے ہی مانتے تھے ” اوکے سر بٹ آدھا گھنٹے سے زیادہ مشکل ہے ” ملازم انکے ساتھ چل رہے تھے وہ امرحہ کا ہاتھ پکڑ اس گارڈن کی کرسیوں سے گزرا ہی تھا جب سامنے جیپ آئی ” امرحہ جی ” ہاشم کے ابھی یہی الفاظ تھے جب وہ اسکا ہاتھ چھوڑتی بھاگ کر جیپ میں بیٹھتی ہے جبکہ اس جیپ کے پیچے کئی اور سفید سیاہ کار کھڑی تھی اتنا پروٹوکول نظر آتا تھا جیسے کسی رئیس کا بیٹا ہو ہاشم مگر امرحہ کی فیملی بھی کسی سے کم نا تھی وہ تو محل نما حویلی کو دیکھ کر ہی پتا چلتا تھا R k novels afficial ” ماضی ” “کہیں ایسی جگہ پر تم مت جانا جہاں کا پتا نا ہو میں بس ابھی آ رہی ہو رحیم سے نوٹس لے کر اچھا فیزا ” کلاس سے باہر آنے پر فائزہ نے فیزا سے کہتے اپنے بیگ سے فون نکالا جبکہ فیزا اسکو دیکھ کر خیران تھی کہ وہ کہاں پر جا رہی ہے “اوکے یار بس تھوڑی دیر کی بات ہے پھر میں آ جاؤ گی” وہ ڈیپارٹمنٹ سے نکل آئی تھی اور اسکو کہتی وہی پر چھوڑ کر رحیم کے پاس چلی گئی فیزا اور فائزہ کا لاسٹ سمیسٹر چل رہا تھا مگر فیزا کا ایڈمیشن لاسٹ سمیسٹر میں ہوا تھا جسکی وجہ سے اسکو اتنا پتا نہیں تھا کلاس کا اور یونیورسٹی کے ایرے کا “اوفف کتنی بڑی یونیورسٹی ہے” کافی لڑکیاں لڑکوں کے رش کو دیکھتی وہ خود کلامی کرتی ہے تھوڑے سے فاصلے بعد وہ کمپیوٹر کی کلاسس کے باہر کھڑی تھی مگر چند فاصلے پر ٹیرس آتا تھا جہاں سے پوری یونیورسٹی کو دیکھا جا سکتا تھا وہ یہی سوچ رکھتی ٹیرس کی طرف جاتی ہے “اچھے سے مارو ہڈیاں تک ٹونٹی چاہیے اس کی” ایک کلاس سے آتی آواز سن وہ زرا ڈری “اہہہ پلیزز یار جانے دیں۔ بہت درد ہو رہا ہے” وہ لڑکا چیخ چیخ کر جانے کا کہہ رہا تھا مگر کمرے میں موجود سبھی کو رحم کہاں تھا “کیا یار ایسے نہیں مارتے میں بتاتا ہوں” رنگت بلکل سفید تھی بالو کو اچھے سے سٹائل دیا گیا تھا ہلکی سی شیونگ نمایا ہوتی تھی بلیک پینٹ اور بلیک ہی شرٹ کے اوپر بلیک جیکٹ ڈالے وہ کافی رعب دار شخصیت لگتا تھا جبکہ آنکھو پر گلاسز تھی چال بلکل امیروں جیسی تھی “لا مجھے دیں” بیٹ مانگتے اسنے کرسی کھینچ کر سامنے کی وہ لڑکا ابھی تک خوف زدہ تھا “چل میرا بیٹا زرا تیار ہو جا” ایک ہی پل میں کرسی سے اٹھتے اسنے بیٹ کو اسکے چہرے پر ہٹ کیا تھا اور پھر دو تین بار تک تو کرتا ہی رہا وہ چیخ رہا تھا درد سے مگر سامنے کھڑا شخص بس مارنے کا سوچتا تھا ہڈیاں توڑنے کا فیزا نے ابھی دروازہ کھولا ہی تھی کہ سامنے کا منظر دیکھ چیخ نکلی تھی جلدی سے منہ پر ہاتھ رکھتی وہ واپس کو مڑنے لگی تھی جب اسنے لڑکے نے بیٹ کو وہی پر چھوڑتے آواز لگائی “اے لڑکی واپس آؤ ورنہ تمہیں بھی اسی بیٹ سے مارو گا” فیزا کی ٹانگوں میں جان ہی نا رہی تھی جب اسنے پیچھے سے آتی آواز سنی “سنا نہیں۔ ورنہ میں آؤ” بیٹ پر خون کی چھینٹے لگ چکی تھی جسکو وہ واپس ہاتھ میں پکڑتا اس لڑکی کے پاس آیا جبکہ وہاں سارے فرینڈ ان دونوں کو دیکھ رہے تھے اور اس بیچارے کے چہرے کا حشر نشر بگاڑ دیا تھا اسنے “نام کیا ہے تمہارا” فیزا کو کمر کر کھڑا دیکھ اسنے پوچھا جبکہ وہ آنکھیں بند کرتی خوف سے کانپ رہی تھی “نام کیا ہے تمہارا” یک دم بازوؤں سے کھینچ کر اسنے سامنے کیا تھا مگر ابھی تک فیزا نے آنکھیں بند رکھیں تھی لباس سے تو سیمپل لگتی تھی بالوں کو چوٹیاں میں قید کیا گیا تھا چہرے پر خوف کے تاثرات بھی حسن میں کمی نا لاتے مگر ان بند آنکھو کو چشما لگا ہوا تھا “پلیزز مجھے بیٹ سے مت مارنا۔ پلیزز۔ پلیززز” وہ یہی کہہ رہی تھی جب فائزہ اسکو ڈھونڈتی اس کمرے تک آ پہنچی “مار دو گا بیٹ سے اگر آنکھیں نا کھولی” جمشید نے بھی دھمکی دی تھی یک دم آنکھیں کھولیں تھی وہ سامنے لڑکو کو اگنور کرتی اس زخمی لڑکے کی طرف دیکھتی ہے آنکھیں بلکل بلیو جیسی تھی ۔ “فیزا۔ فیزا۔۔ تم ادھر کیا کر رہی ہو” فائزہ کمرے میں دیکھ وہ اکیلا سمجھتی پوچھتی ہے مگر جب اندر آئی تو سامنے لڑکوں کا ہجوم دیکھ کر خیران ہوئی “آپی ۔ آپی۔۔ پلیززز یہاں سے چلے” فائزہ کو کلائی سے پکڑتی وہ کمرے سے باہر بھاگی جبکہ وہ لڑکا فائزہ کے آنے پر بس اسکو یہ دیکھتا رہ گیا وہ وہاں سے چلی گئی تھی مگر خیال ابھی تک آخر پر کمرے میں آئی لڑکی کا تھا “جمشید دورانی کو بھی کوئی لڑکی پسند آئی ہے” کندھے پر یار ہاتھ رکھتے شرارت سے بولیں “وہ کون تھی آج تک تو نہیں دیکھی ۔۔ ارے جمشید کیا کیا تونے۔ پرنسپل بلا رہے ہے تجھے اپنے آفس میں اور بڑے بھائی بھی آ رہے ہے یونیورسٹی ۔۔ ان کو پرنسپل نے بلایا ہے اب تو تیری خیر نہیں” جمشید کے الفاظ ابھی آدھے ہی رہے جب لطیف نے بھاگتے آتے پھاڑ توڑا۔۔ “چل ٹھیک ہے پھر ملتے ہے مگر اس امیر زادے کی زرا کلاس اچھے سے لینا اب نہیں تنگ کرے گا لڑکیوں کو” بیٹ لطیف کو دیتے وہ کمرے سے باہر نکلا “کیا تم پاگل ہو فیزا جو وہاں پر چلی گئی تمہیں پتا بھی ہے اس لڑکے کا۔ آئیندہ میں نا دیکھو تمہیں دوبارہ اس کمرے میں پتا نہیں اس لڑکے کو کتنا مارا ہے اس جاہل نے” فائزہ کا تو غصہ ہی کم نہیں ہو رہا تھا جبکہ فیزا خاموش اسکے ساتھ چل رہی تھی وہ ابھی اپنے ڈیپارٹمنٹ سے باہر ہی نکلی تھی جب گاڑیوں کا قافلہ اندر اینٹر ہوا لڑکیا لڑکے سب خیران تھے روکی تو وہ دونوں بہنے بھی تھی لگتا ہے اس کا بھائی ہے یہ۔ آج تو میں اسکو سنا کر ہی رہو گی کیا پتا کچھ اثر پڑے اس پر فائزہ فیزا کو ساتھ لے جاتے گاڑی کے باہر کھڑی تھی “باہر نکلو” فائزہ نے ابھی اتنا ہی کہا تھا جب خاموشی ہی بہتر لگی گاڑی سے باہر آتے شخص کو دیکھ کر “کیا تم نے اپنے بھائی کو زرا تمیز نہیں سیکھائیں لڑکوں کو مارتا پیٹتا ہے۔ ابھی اگر میری بہن کے ساتھ کچھ غلط کر دیتا تو۔ کیا یہ تمہارے باپ کی یونیورسٹی ہے ہاں جو چاہے وہ کرو ہاں ” باہر نکلنے پر وہ تو اس شخص کو سنائے جا رہی تھی اور وہ چپ سن رہا تھا ویسے تو ڈریسنگ سے بزنس مین لگتا تھا اور پرسنلٹی بھی کافی متاثر کرتی گی “اگر اب وہ میری بہن کے پاس نظر آیا تو ٹانگیں توڑ دو گی” فیزا نے اپنی آگ بگولہ بہن کو چپ کروانا ہی بہتر سمجھا تھا “آپی جی پلیزز چپ کر جائے۔ سوری انکل آپی کو غصہ ہے اس ٹائم انکی طرف میں معازرت کرتی ہو” فائزہ کو کلائی سے پکڑتی وہ وہاں سے لے جانے کا کہہ رہی تھی “تم چپ رہو۔ بلکل چپ” ابھی تک وہ لڑکا اس کی سنی جا رہا تھا آفس سے بلاوا آنے پر فائزہ چپ ہوئی تھی “چلو یہاں سے” فیزا کو اپنے ساتھ لے جاتی وہ پل بھر میں اس کی نظرو سے پرے ہوئی تھی جبکہ وہ ملازم کے ساتھ پرنسپل کے آفس میں گیا R k novels afficial ہسپیٹل آنے پر امرحہ نے دادو سے ملنا چاہا مگر باڈی کو جنازے کے لیے بھیج دیا گیا تھا وہ ایک بار بس ایک آخری نظر تک نا دیکھ سکی اپنی دادو کو امرحہ ابھی تک دادو کے روم میں تھی وہ مسلسل رویے جا رہی تھی “امرحہ جی پلیزز چپ کر جائے” ہاشم نے اندر آتے کہا تھا جبکہ ہاتھ میں کچھ تھا وہ ہاشم کے منع کرنے پر بھی نا مانی تھی “امرحہ جی اگر آپ چپ نا کرے گی تو یہ دادو کی وصیت نہیں دو گا” سفید رنگ کا لفافہ ہاتھ میں پکڑے وہ امرحہ کے ساتھ صوفے پر بیٹھا بغیر کوئی بات کرتی وہ لفافہ چھینتی پڑھنے لگتی ہے ” دو بیٹے ہے میرے ایک سے اللّٰہ نے مجھے امرحہ دی تو دوسرے سے اللّٰہ نے مجھے ہاشم دیا وہ دونوں ہی میری جان ہے اتنا پیار کرتی ہو میں ان دونوں سے مگر جب وصیت ہاتھ لگے گی تو جان کہتے کہتے جان ہی لے لی ہوگی میں نے میری پیاری بچی میں کیا حال پوچھو جب خود ہی تمہیں بے حال کر دیا ہے مگر میری یہ خواہش تھی کہ تم ہاشم کی دلہن بنو وہ عمر میں تم سے چھے سال چھوٹا ہے پر اسکا مطلب یہ نہیں کہ عقل و شعور نا رکھتا ہو وہ ایک قابل اور ذہین بچا ہے تم اسکے ساتھ وقت گزارنا تمہیں کبھی میرے فیصلے پر پیشیمان نا ہونا پڑے گا اور دیکھنا میری بچی ہاشم کی پسند میں کمی کبھی نہیں آئے گی کیونکہ وہ میرا فیصلہ تھا تم زندگی کے کسی موڑ پر میری باتوں کو سمجھ جاؤ گی اور مجھے یقین ہے تم اس وصیت کو پڑھنے کے بعد ہاشم کو اپنا سمجھو گی میرے نام جتنی جائیداد تھی وہ سب تمہارے نام کر دی ہے ہاشم کی دلہن امرحہ میری بچی تمہاری دادو سعدیہ دورانی ” “دادو ۔۔ دادو ۔۔ مجھے کچھ نہیں چاہے تھا۔ پلیزز واپس آ جائے ” امرحہ نے آنکھو سے پانی کو آزاد کیا لفافے کو سینے سے لگاتی وہ چیخ چیخ کر رو رہی تھی ہاشم کی جان ہی نکل رہی تھی جب سے نیویارک سے آیا تھا تب سے وہ امرحہ کو روتے دیکھ رہا تھا مگر غم بھی تو بڑا تھا “امرحہ جی پلیزز چپ کر جائے کیوں اتنا رویے جا رہی ہے کیا دادو نے وصیت میں کچھ ہرٹ کرنے والا لکھا تھا” جلدی سے لفافے کو لیتے وہ پڑھنا چاہتا تھا جب امرحہ نے سخت تاثرات سے ہاشم کو سناتے لفافہ چھینا “تم اس کو نہیں پڑھو گے” جلدی سے اٹھتے وہ شدید غصے سے بولی تھی “مگر کیوں امرحہ جی اس میں کیا لکھا ہے جو آپ مجھے پڑھنے نہیں دے رہی’ ‘ہر بات مانتے ہو نا تو یہ بھی مانو تم اس کو کبھی نہیں پڑھو گے” ہاشم نے تین بار ہاں میں سر ہلایا امرحہ اسکے پاس جاتی ہاتھ پکڑتی اپنے ساتھ کمرے سے باہر لے کر آئی جبکہ ہاشم اسکو دیکھتا ہی رہا ایک دن بعد ۔۔۔ 🔥❤️🔥❤️ آج میت کا دن گزر چکا تھا جیسے گزرا تھا وہ بس گھر والے ہی جانتے تھے سعدیہ دورانی کے جانے کے بعد سب اکیلے سے ہو گے تھے امرحہ اور ہاشم کی آج رات کی فلائٹ تھی ملازمین نے پیکنگ کر دی تھی ٹائم بھی ہو رہا تھا مگر امرحہ کبھی بھی ہاشم کے ساتھ نہیں جانا چاہتی تھی آج ہی تو دادو کا جنازہ ہوا تھا اور آج ہی پاکستان سے چلی جاتی وہ یہی سوچ رکھتی سٹڈی روم میں داخل ہوئی “اسلام علیکم بابا ” احترام سے سلام لیتی وہ بولی تھی “واعلیکم اسلام میرا بچا ” فوراً سے جاوید صاحب نے کرسی سے اٹھتے کہا اور اسکو اپنے ساتھ صوفے پر بیٹھایا “بابا مجھے آپ کو چھوڑ کر نہیں جانا میں کبھی خالہ جان کے گھر نہیں گئی اور ساری عمر کیسے گزار لو ابھی میرا کالج کا پہلا سال ہے میں کیسے رہ لو گی نیویارک میں آپ سب کے بغیر یہ بہت مشکل ہے بابا ” اپنے باپ کے سینے پر سر رکھتی وہ درد بتا رہی تھی جبکہ جاوید صاحب اپنی جان کے بال سہلا رہے تھے ‘تمہاری دادو کی خواہش تھی کہ تم ہاشم کی دلہن بنو اور ان کی خواہش کا احترام کرو امرحہ تم رہنا سیکھ لو گی ہاں پر ہم ملنے آ جایا کریں گے تم سے اور ہاشم بہت ہی سمجھدار بچا ہے مجھے نہیں لگتا کہ وہ تم سے کبھی بھی غلط سوچ لگائے گا اگر تم اسکو اپنی محبت کا یقین دلاتی رہو” “مگر بابا ” یک دم سر اٹھاتی وہ تڑپی تھی “میں نے کبھی ہاشم سے پیار تک نہیں کیا پھر محبت کیسے کر سکتی ہو وہ مجھ سے بہت چھوٹا ہے میں کیسے رہو گی اسکے ساتھ ” آنکھیں نم کرتی وہ کہہ رہی تھی جاوید صاحب نے کھڑے ہوکر اسکو بھی کھڑا کیا اور اپنے سینے سے لگا کر اپنی بچی کو پیار دیا “سب کچھ اللہ پر چھوڑ دو امرحہ اور ہاشم کے ساتھ چلو دنیا میں بہت کچھ ہو جاتا ہے ابھی تو میں زندہ ہو ” “چپ کر جائے بابا ” اپنے باپ کے آگے کے الفاط کا مطلب وہ اچھے سے سمجھتی تھی تبھی تو چپ رہنے کا سنا گئی “تمہاری فلائٹ کا ٹائم ہو گیا ہے چلو ائیرپورٹ چھوڑ آؤ ” خود سے دور کرتے وہ بولے تھے امرحہ نے سر جھکا لیا انہوں نے اب ہاتھ سے پکڑ کر باہر کی طرف رخ کیا R k novels afficial تھوڑی دیر بعد فلائٹ میں وہ دونوں بیٹھ چکے تھے ہاشم کی سیٹ کھڑکی کے ساتھ تھی جبکہ امرحہ کی اسکے ساتھ اسنے نوٹ کیا تھا جیسے ہاشم بہت ہی تھک چکا ہو اس لیے وہ سو گیا تھا لاہور ائیرپورٹ سے فلائٹ چلی تھی اور نیویارک جانا تھا پورا سفر ہاشم سویا رہا نا کچھ کھایا نا کچھ پیا امرحہ نے ہمت تو کی تھی اسے بات کرنے کہ کچھ کھا لیں مگر وہ انکار کر جاتا سفر ختم ہو چکا تھا مگر ہاشم کی طبیعت فلائٹ میں ہی خراب ہو گئی تھی ایک تو عمر بھی چھوٹی تھی اور اوپر سے نا کھانے پینے کی وجہ سے تھا اتنا سخت بخار تھا کہ ہاتھ تک نہیں لگایا جا رہا تھا ائیرپورٹ سے باہر آنے پر سامنے گھر کے ملازم کھڑے تھے انہوں نے سامان تھاما اور اخترام سے سلام دعا کی جبکہ امرحہ خیران تھی کہ خالہ جان کیوں نہیں آئی ۔ “ہاشم سائیں کو کیا ہوا ہے چھوٹی سائیں ۔۔” گاڑی میں خاموش بیٹھی ملازمہ نے پوچھا جبکہ ہاشم اور امرحہ دونوں پیچھے بیٹھے تھے ابھی تھوڑی دیر ہی ہوائی تھی جب ہاشم اسکی گود میں سر رکھ لیتا ہے تبھی تو ملازمہ نے پوچھا “کچھ نہیں بس کھانا نہیں کھایا اسنے فلائٹ میں ہاشم سائیں تو کھانا نا کھائے تو بیمار ہو جاتے ہے آپ فکر مت کریں میں بس ڈاکٹر کو کال کر لو کہ وہ گھر آیا ہو ویسے کیا آپ نے کھانا کھایا تھا چھوٹی سائیں ” ملازمہ آگے بیٹھے سوال پر سوال پوچھ رہی تھی امرحہ نے نفی میں سر ہلایا ” امرحہ جی ” امرحہ کا ہاتھ پکڑتے ہاشم نے اپنے گال پر رکھا “گھر آنے پر آپ کھانا کھا لینا بھوکے رہے تو بیمار ہو جاتے ہے” آنکھیں بند تھی خود بخار میں مبتلا وہ امرحہ کی فکر میں ڈوب رہا تھا امرحہ نے پہلے تو چاہا کہ ہاتھ واپس کو کخینچ لے پھر دل نے اجازت ہی نا دی بے ساختہ ہاتھ اسکے گال سے بالوں میں چلے گے وہ ہاشم کے چہرے کو دیکھ رہی تھی گال بخار سے سرخ ہو چکے تھے جبکہ سانس دونوں آزاد لبوں سے وہ لے رہا تھا آنکھیں تک کھولنے کی ہمت نہیں تھی تقریباً پندرہ منٹ بعد گاڑیاں ایک جنگل کی طرف مڑی تھی تبھی امرحہ نے ملازمہ سے پوچھا “یہ گاڑی اس طرف کیوں جا رہی ہے ” ملازمہ پہلے تو چونکی پھر جواب دیا “اپ کے مامو سائیں نے گھر سیٹی سے الگ بنوایا تھا ہم ہمیشہ سے یہی رہتے آئے ہے ” امرحہ نے نوٹ کیا تھا کہ جب سے آئی تھی وہ حویلی میں بولی جاتی زبان میں بات کرتے تھے یہ سائیں تو حویلی میں بولا جاتا تھا پھر نیویارک میں کیوں بول رہے تھے ۔ گاڑی سنسان سڑک پر چل رہی تھی مگر اردگرد کافی درخت تھے کافی کھلا علاقہ تھا دیکھتے ہی دیکھتے گاڑیاں گھر میں انٹر ہوئی تھی وہ بلکل کسی کا نایاب بنگلہ لگتا تھا باہر سے ہی ٹائلز سیاہ رنگ کی تھی نیویارک میں رہنے کی وجہ سے گھر بھی بلکل سٹائلش تھا سب سے پہلے گاڑی مین گیٹ سے اندر اینٹر ہوئی پھر چند فاصلے پر گاڑی روکی تھی مگر سامنے ہی گھر کا مین دروازہ کھولتا تھا جو پورے گھر کو سامنے سے ایک ہی راستہ دیتا تھا ملازم نے جلدی سے باہر نکل کر سامان گاڑی سے نکالا اور اندر کو چلا گیا ملازمہ بھی سامان نکالتی اور دوسروں کو حکم سنانے میں مصروف ہو گئی ” ہاشم گھر آ گیا ہے اٹھو” اسنے ہاشم سے کہا جبکہ وہ بلکل خاموش اسکی گود میں لیٹا تھا جیسے خبر ہی نا ہو بے اختیار ہاتھ بخار چیک کرنے کے لیے ماتھے پر گیا تھا مگر پھر ایسے محسوس ہوا جیسے کسی جلتی چیز پر ہاتھ رکھ لیا ہو اتنا سخت بخار۔۔” ملازمہ نے دروازہ کھولا تو امرحہ نے فکری سے ایک نظر ہاشم کی طرف تو دوسری ملازمہ کی طرف دیکھا تھا “کیا ہوا چھوتی سائیں ” اس کو بہت زیادہ بخار ہو چکا ہے اور یہ آٹھ بھی نہیں رہا “چھوٹی سائیں ابھی ملازم نہیں آیا جو ان کو اٹھا کر اندر لے جائے اگر کہتی ہے تو میں بلا کر لاتی ہو ” “نہیں رہنے دیں آپ بس ڈاکٹر کو بلوا لیں ” ملازم کی بات کو وہ سمجھتی امرحہ نے جیسے تیسے کر گاڑی سے باہر نکل کر ہاشم کو گود میں اٹھایا ملازمہ خیران تھی کہ امرحہ نے ہاشم کو گود میں کیسے اٹھا لیا ہے اگر دیکھا جائے تو وہ ابھی صرف بارہ سالہ بچا ہی تھا اور کھاتا پیتا بھی بہت کم تھا اس لیے امرحہ اسکو اٹھا سکتی تھی ملازمہ کے رستہ بتانے پر وہ کمرے میں لائی تھی ابھی گھر کو غور سے دیکھنے کی کہاں پڑی تھی بس ایک نظر کمرے پر ہی گئی تھی جو تقریباً حویلی کے تین کمروں کو ملا کر ایک کمرہ لگتا تھا “میں ابھی آتی ہو ” جلدی سے ملازمہ کہتی کمرے سے باہر نکل گئی مگر تھوڑی دیر بعد وہ ڈاکٹر کے ساتھ آئی تھی امرحہ تو صوفے پر جاکر بیٹھ جاتی ہے پانچ منٹ ہی ہوئے تھے جب ڈاکٹر نے چیکپ کر کے امرحہ کو بلا لیا “بخار بہت تیز ہے آپ کوشش کریں کہ زیادہ خیال رکھیں ورنہ کچھ نقصان بھی ہو سکتا ہے ٹھنڈے پانی کی پٹیاں کرتے رہے میں نے انجکشن لگا دیا ہے ان کو تھوڑی دیر بعد حوش آنے پر کھانا لازمی کھلا دینا آپ پھر چاہے جتنا مرضی انکار کریں اب میں چلتا ہو ” ڈاکٹر کی سنتی وہ خاموش رہی تھی اسکے کمرے سے باہر جانے پر وہ ایک نظر کمرے کو اور دیکھتی ہے پوری ایک دیوار تو شیشے کی بنی ہوئی تھی جو باہر کے منظر دیکھاتی باقی باتھ کا دروازہ سائڈ پر تھا اس کمرے سے ایک سٹڈی روم کا دروازہ بھی کھولتا تھا گرے کلر کے صوفے جبکہ پورا کمرہ سفید رنگ کا بیڈ تک ہاشم کی اور اسکی فیملی کی فوٹو دیوار پر لگی تھی جن میں کچھ وہ اکیلا بھی کھڑا تھا بیڈ کے سامنے ہی ایل سی ڈی تھی جو آدھی سے کم دیوار کو چھپا گئی تھی کمرہ دیکھتے ہی وہ ڈوب گئی تھی وہ واپس کو مڑی تو ہاشم کا ہاتھ بیڈ سے نیچے جا گرا تھا جیسے بے جان سا ہو گیا ہو جلدی سے پاس جاتی وہ ہاتھ کو تھامتی بیڈ شیٹ پر رکھتی ہے بخار چیک کرتے چہرے پر تھوڑی تو فکری آئی ہی تھی “چھوٹی سائیں آپ آرام کر لیں ہم خود ہاشم سائیں کو پٹیاں لگا دیتے ہے ” ملازمہ کو کمرے میں دیکھ وہ فوراً سے دور ہوئی “ن۔۔ نہیں ۔ میں کر لیتی ہو” “ٹھیک ہے چھوٹی سائیں ۔ ” ملازمہ سے پانی اور سفید پٹیاں لیتی وہ میز پر جاکر رکھتی ہی ہے جب ایک سوال دماغ میں گھومنے لگا “کیا خالہ جان گھر پر نہیں ” ملازمہ پہلے تو خاموش رہی پھر سر جھکا کر جواب دیا “وہ رات کو ملے گی آپ دونوں سے ابھی آرام کر رہی ہے اور آپ ہاشم کے بخار کا مت بتائیے گا وہ بہت ٹینشن لیتی ہے اور ڈاکٹر نے منع کی ہے اب میں چلتی ہو اگر کچھ چاہیے تو بس آواز دیجیے گا چھوٹی سائیں” ملازمہ کی بات امرحہ کو سمجھ نا آرہی تھی “کیا خالہ جان بیمار رہتی ہے ” وہ یہی سوچ رہی تھی جب ہاشم نے بند آنکھو سے ہی پانی مانگا “ا۔۔ امرحہ ۔ جی۔۔ ” جلدی سے پاس جاتی جگ سے پانی گلاس میں ڈالتے وہ ہاشم کو اٹھاتی پانی پیلاتی ہے دوبارہ لیٹاتے وہ پاس ہی بیٹھی تھی ہاشم ابھی تک بند آنکھو سے لیٹا تھا امرحہ نے بیڈ پر اسکے ساتھ بیٹھتے پانی کی پٹیاں کرنی شروع کی تھی خود بھی ٹریول کی وجہ سے وہ تھکی تھی مگر پٹیاں کرنی لازمی تھی کیونکہ اگر بخار نا ٹھیک ہوا تو نقصان بھی ہو سکتا تھا بس یہی خیال لاتی وہ ڈاکٹر کی بات کو سیریس لے کر پٹیاں کرتی رہی تھوڑی دیر بعد وہ خود بھی سو گئی تھی اپنے بازوؤں پر سر رکھا تھا جبکہ ایک ہاتھ ہاشم کے ماتھے پر تھا وہ لیٹی بھی تو اسی سٹائل سے تھی جیسے سونے پر بھی اسکو فکر ہو۔ نجانے یہ عمر کا سلسلہ ختم ہونے پر ان دونوں میں محبت ہوگی یا پھر ہاشم کی پسند میں کمی آئے گی یا پھر امرحہ کی نفرت دشمنانِ جاں بنے گی”